Allama Iqbal Ghazals: A Guide to His Poetry

خرد مندوں سے کیا پوچھوں کہ میری ابتدا کیا ہے

خرد مندوں سے کیا پوچھوں کہ میری ابتدا کیا ہے
کہ میں اس فکر میں رہتا ہوں میری انتہا کیا ہے

خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے

مقام گفتگو کیا ہے اگر میں کیمیا گر ہوں
یہی سوز نفس ہے اور میری کیمیا کیا ہے

نظر آئیں مجھے تقدیر کی گہرائیاں اس میں
نہ پوچھ اے ہم نشیں مجھ سے وہ چشم سرمہ سا کیا ہے

اگر ہوتا وہ مجذوب فرنگی اس زمانے میں
تو اقبالؔ اس کو سمجھاتا مقام کبریا کیا ہے

نوائے صبح گاہی نے جگر خوں کر دیا میرا
خدایا جس خطا کی یہ سزا ہے وہ خطا کیا ہے

جب عشق سکھاتا ہے آداب خود آگاہی

جب عشق سکھاتا ہے آداب خود آگاہی
کھلتے ہیں غلاموں پر اسرار شہنشاہی

عطارؔ ہو رومیؔ ہو رازیؔ ہو غزالیؔ ہو
کچھ ہاتھ نہیں آتا بے آہ سحرگاہی

نومید نہ ہو ان سے اے رہبر فرزانہ
کم کوش تو ہیں لیکن بے ذوق نہیں راہی

اے طائر لاہوتی اس رزق سے موت اچھی
جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی

دارا و سکندر سے وہ مرد فقیر اولیٰ
ہو جس کی فقیری میں بوئے اسد اللہٰی

آئین جواں مرداں حق گوئی و بیباکی
اللہ کے شیروں کو آتی نہیں روباہی

زمانہ آیا ہے بے حجابی کا عام دیدار یار ہوگا

زمانہ آیا ہے بے حجابی کا عام دیدار یار ہوگا
سکوت تھا پردہ دار جس کا وہ راز اب آشکار ہوگا

گزر گیا اب وہ دور ساقی کہ چھپ کے پیتے تھے پینے والے
بنے گا سارا جہان مے خانہ ہر کوئی بادہ خوار ہوگا

کبھی جو آوارۂ جنوں تھے وہ بستیوں میں پھر آ بسیں گے
برہنہ پائی وہی رہے گی مگر نیا خار زار ہوگا

سنا دیا گوش منتظر کو حجاز کی خامشی نے آخر
جو عہد صحرائیوں سے باندھا گیا تھا پھر استوار ہوگا

نکل کے صحرا سے جس نے روما کی سلطنت کو الٹ دیا تھا
سنا ہے یہ قدسیوں سے میں نے وہ شیر پھر ہوشیار ہوگا

کیا مرا تذکرہ جو ساقی نے بادہ خواروں کی انجمن میں
تو پیر مے خانہ سن کے کہنے لگا کہ منہ پھٹ ہے خار ہوگا

دیار مغرب کے رہنے والو خدا کی بستی دکاں نہیں ہے
کھرا جسے تم سمجھ رہے ہو وہ اب زر کم عیار ہوگا

تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کرے گی
جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہوگا

سفینۂ برگ گل بنا لے گا قافلہ مور ناتواں کا
ہزار موجوں کی ہو کشاکش مگر یہ دریا سے پار ہوگا

چمن میں لالہ دکھاتا پھرتا ہے داغ اپنا کلی کلی کو
یہ جانتا ہے کہ اس دکھاوے سے دل جلوں میں شمار ہوگا

جو ایک تھا اے نگاہ تو نے ہزار کر کے ہمیں دکھایا
یہی اگر کیفیت ہے تیری تو پھر کسے اعتبار ہوگا

کہا جو قمری سے میں نے اک دن یہاں کے آزاد پا بہ گل ہیں
تو غنچے کہنے لگے ہمارے چمن کا یہ رازدار ہوگا

خدا کے عاشق تو ہیں ہزاروں بنوں میں پھرتے ہیں مارے مارے
میں اس کا بندہ بنوں گا جس کو خدا کے بندوں سے پیار ہوگا

یہ رسم برہم فنا ہے اے دل گناہ ہے جنبش نظر بھی
رہے گی کیا آبرو ہماری جو تو یہاں بے قرار ہوگا

میں ظلمت شب میں لے کے نکلوں گا اپنے درماندہ کارواں کو
شہہ نشاں ہوگی آہ میری نفس مرا شعلہ بار ہوگا

نہیں ہے غیر از نمود کچھ بھی جو مدعا تیری زندگی کا
تو اک نفس میں جہاں سے مٹنا تجھے مثال شرار ہوگا

نہ پوچھ اقبالؔ کا ٹھکانہ ابھی وہی کیفیت ہے اس کی
کہیں سر رہ گزار بیٹھا ستم کش انتظار ہوگا

نگاہِ فقر میں شانِ سکندری کیا ہے

نگاہِ فقر میں شانِ سکندری کیا ہے

خراج کی جو گدا ہو، وہ قیصری کیا ہے!​​

بُتوں سے تجھ کو امیدیں، خدا سے نومیدی​

مجھے بتا تو سہی اور کافری کیا ہے!​

​فلک نے ان کو عطا کی ہے خواجگی کہ جنھیں​

خبر نہیں روشِ بندہ پروری کیا ہے​

فقط نگاہ سے ہوتا ہے فیصلہ دل کا​

نہ ہو نگاہ میں شوخی تو دلبری کیا ہے​

اسی خطا سے عتابِ ملوک ہے مجھ پر​

کہ جانتا ہوں مآلِ سکندری کیا ہے​

​کسے نہیں ہے تمنائے سروری، لیکن​

خودی کی موت ہو جس میں وہ سروری کیا ہے!​

​خوش آگئی ہے جہاں کو قلندری میری​

وگرنہ شعر مرا کیا ہے، شاعری کیا ہے!​

گُلزارِ ہست و بود نہ بیگانہ وار دیکھ

گُلزارِ ہست و بود نہ بیگانہ وار دیکھ
ہے دیکھنے کی چیز اسے بار بار دیکھ

آیا ہے تُو جہاں میں مثالِ شرار دیکھ
دَم دے نہ جائے ہستیِ نا پائدار دیکھ

مانا کہ تیری دید کے قابل نہیں ہوں میں
تُو میرا شوق دیکھ، مرا انتظار دیکھ

کھولی ہیں ذوقِ دید نے آنکھیں تری اگر
ہر رہ گزر میں نقشِ کفِ پائے یار دیکھ

Read also: 5 Allama Iqbal Ghazal

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top